Tuesday 14 June 2016

<Previous> 

وقت کرتا ھے پرورش برسُوں
حــادثہ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک دم نہیں ہوتـــا

********************

نکر موجوال کی نازیہ کو اس کے شوہر نزاکت نے لفٹ سے اترتے ہی ہوتریڑی میں گولی مار دی تھی
---------------
نازیہ کا والد کُلیاں، مظفر آباد سے آکر اپنی زخمی بیٹی کو ڈی ایچ کیو ہسپتال ایبٹ آباد لے گیا تھا۔
--------------
بکوٹ بولیس شام کو آئی اور موقع ملاحظہ کیا ۔۔۔۔ اے ایس آئی نصیر نے ایبٹ آباد میں ہی رپورٹ لکھی۔
---------------
نازیہ کی گولی ہوتریڑی میں ہی نکال لی گئی تھی، اس وقت ہسپتال میں اس کی حالت خطرے سے باہر ہے ۔
--------------

بکوٹ پولیس حسب روایت

Look busy, do nothing

   کی پالیسی پر  گامزن  ۔۔۔۔ عملی طور پر کچھ بھی کرنے سے گریزاں ۔۔۔۔ 48 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی ملزم نزاکت گرفتار نہیں ہو سکا

*******************************

تحقیق و تحریر

محمد عبیداللہ علوی

صحافی، مورخ، بلاگر

خصوصی رپورٹ

بلال بصیر عباسی بیروٹ خورد

نمائندہ فرنٹیئر پوسٹ پشاور

*******************************

 نکر موجوال ، بیروٹ خوردمیں فائرنگ کے واقعہ کی نئی اور تازہ ترین صورتحال سامنے آئی ہے جس کے مطابق ۔۔۔۔۔ زخمی نازیہ اس وقت اے ایم ایچ سرجیکل وارڈ بی ایبٹ آباد میں زیر علاج ہے ۔۔۔۔۔ بیروٹ کے پہلے اعلیٰ تعلیم یافتہ صحافی اور پشاور کے انگریزی اخبار فرنٹیئر پوسٹ کے یو سی بیروٹ میں نامہ نگار بلال بصیر عباسی کے مطابق ۔۔۔۔  نازیہ اپنی والدہ رخسانہ بی بی کے ساتھ ہوتریڑی چوک سے ڈاکٹری چیک اپ کے بعد لفٹ کے ذریعے ابھی ہوتریڑی، بیروٹ خورد اتری ہی تھی کہ اس کے شوہر نزاکت عباسی ولد کالا خان نے پیچھے سے دبے قدموں آ کر اسے گولی مار دی اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ۔۔۔۔۔ فائرنگ کی آواز سن کر ہوتریڑی کے لوگ موقع پر پہنچے اور اس کی حالت غیر ہو چکی تھی، اسے چارپائی پر لٹایا اور ساتھ ہی اس کے والد شفیق کو فون کیا جو اس وقت  کلیاں، مظفر آباد میں اپنی دکان پر بیٹھا تھا ۔۔۔۔ وہ اپنی دکان بند کر کے فوری طور پر ہوتریڑی پہنچا اور اہنی بیٹی کو لیکر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ایبٹ آباد پہنچا ۔۔۔۔ بکوٹ پولیس کی چُستی کا یہ حال تھا کہ وہ شام کو موقع پر پہنچی اور موقعہ ملاحظہ کیا ۔۔۔۔۔ زخمی نازیہ پر قاتلانہ حملہ کی رپورٹ بکوٹ پولیس کے اے ایس آئی نصیر نے ہسپتال میں ہی لکھی جو ایبٹ آباد میں موجود تھا ۔
صحافی بلال بصیر عباسی کا مزید کہنا ہے کہ نازیہ کے جسم میں پیوست گولی ہوتریڑی میں ہی نکال لی گئی تھی، اس وقت ہسپتال میں اس کی حالت خطرے سے باہر ہے ۔۔۔۔ اس بدقسمت جوڑے کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔۔۔۔ نزاکت واپس بیرون ملک جانا چاہتا تھا ۔۔۔۔ نازیہ اور نزاکت کے درمیان ناراضگی کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں تھی، نزاکت کےتین اور بھائی خطیب، بشارت اور راہی بھی شادی شدہ  ہیں اور ان تینوں کے باس نکر موجوال میں صرف تین کمرے کا ایک مکان تھا، ان کی والدہ بھی الگ کمرے میں رہتی ہیں اور ان تین کمروں میں چار چولہوں پر کھانا پکتا ہے، نزاکت بیرون ملک سے واپس آ کر اپنا الگ مکان بنانا چاہتا تھا مگر اس دوران نازیہ گھر میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے والد شفیق کے گھر مانواں نی ہل رہنے پر مجبور تھی، نزاکت کے خُسر شفیق نے مانواں نی ہل میں ہی اپنی جائیداد میں اپنے داماد کو گھر بنانے کی پیشکش کی تھی مگر نزاکت ایسا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔۔ بلال بصیر عباسی مزید بتاتے ہیں کہ بکوٹ پولیس اس واقعہ میں صرف ۔۔۔۔ مصروف نظر آئو، عملی طور پر کچھ نہ کرو۔۔۔۔ کی پالیسی پر حسب روایت گامزن ہے جس کی وجہ سے 48 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی ملزم نزاکت گرفتار نہیں ہو سکا ہے۔
۔۔۔۔۔وہ بڈھے اور ان پڑھ لوگوں کے جرگے جو گلیات میں اسی نکر موجوال کی یتیم شادی شدہ بچی سمیعہ کے ڈونگا گلی میں سُسرالی قاتلوں کو بچانے کیلئے پیش پیش تھے ۔۔۔۔۔ جنہوں نے دلولہ میں ایک بے گناہ اٹھارہ سالہ نوجوان عبدالستار پر بدکاری کا الزام لگا کر گزشتہ ماہ ہی پتھروں سے مروا دیا ۔۔۔۔ اب اسی طرح کے بیروٹ خورد کے جرگے بھی ۔۔۔۔ اس بد قسمت جوڑے کو انصاف کی فراہمی ۔۔۔۔۔ کے بجائے پتہ نہیں کہاں چرس پی کر سو گئے ہیں ۔۔۔۔؟ زخمی نازیہ کا مستقبل کیا ہو گا ۔۔۔۔۔ یہ جوڑا دوبارہ اپنا گھر آباد کر سکے گا یا نہیں ۔۔۔۔۔۔ فی الحال ان سوالات کا جواب بیروٹ کلاں کی مصالحتی عدالت کے سابق چیف جسٹس ۔۔۔۔ عزت مآب فاروق ریالی ۔۔۔۔ تلاش کر رہے ہیں نہ ممبر تحصیل کونسل ۔۔۔۔  قاضی سجاول خان ۔۔۔۔ کو ہی اس کی کوئی پرواہ ہے ۔۔۔۔ ایسے میں اسی گھرانے کے اسلام آباد میں نیو ٹی وی چینل کے اینکر اور روزنامہ نئی بات اسلام آباد کے صحافی ۔۔۔۔ شاکر عباسی ۔۔۔۔ کو آگے بڑھ کر ایسی کوئی قابل عمل، قابل قبول اور نزاکت اور نازیہ کے بیچ  ایسا مفاہمانہ راستہ نکالنا چائیے جس سے یہ گھرانہ ہنسی خوشی دوبارہ آباد ہو سکے ۔۔۔۔ کیونکہ جدا کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں مگر ۔۔۔۔ دو دلوں کو ملانے اور گھروں کو آباد کرنے والے بہت کم ۔۔۔۔ بال اب  شاکر عباسی کی کورٹ میں ہے ۔

اس سے پہلے

 
پنتیس پی ایچ ڈیز کی حامل سرکل بکوٹ میں سب سے زیادہ پڑھی لکھی یو سی بیروٹ میں ایک نوجوان قتل 

تین بچوں کی ماں دریائے جہلم میں کود کر غم دوراں سے آزاد ہو گئی۔
------------------
نئے سال کے پہلے ماہ میں سرکل بکوٹ میں دوسرا قتل ۔۔۔۔ بکوٹ پولیس کے شیر جوان ابھی تک قاتلوں تک پہنچنے میں بے بس ۔۔۔۔ پولیس نئے کوہالہ پل کی بھی نگرانی کرنے میں ناکام ۔۔۔۔ کودنے والی خاتون کی لاش نہیں مل سکی ۔۔۔۔ اس کی کمسن بچی کو بچا لیا گیا۔
------------------
گلیات کے بعد سرکل بکوٹ میں بھی جرگوں اور جرگوئیوں کے مصالحانہ کردار پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔
------------------
حکمرانوں سے بھی اہلیان سرکل بکوٹ کا ایک ہی سوال ۔۔۔۔ مٹ جائے گی مخلوق، تو انصاف کرو گے؟

*******************************

تحقیق و تحریر

محمد عبیداللہ علوی

صحافی، مورخ، بلاگر

خصوصی رپورٹ

نوید اکرم عباسی

نمائندہ نوائے وقت اسلام آباد

*******************************

مقتول یاسر اورنگزیب عباسی

روزنامہ محاسب ایبٹ آباد ۔۔۔۔۔۔ 21 جنوری2017

روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد ۔۔۔۔۔۔ 22 جنوری2017

**************************************
 انصاف کی فراہمی میں ناکامی ۔۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔۔ جرگو ں کا غیر فعال کردار ۔۔۔۔۔ 2017 کے پہلے ماہ جنوری میں سرکل بکوٹ میں ایک ستر سالہ بابے سمیت دو افراد کو بھون دیا گیا ہے جبکہ ۔۔۔۔۔ بکوٹ پولیس دونوں مقتولین کے قاتلوں کیخلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے ۔۔۔۔ یہی نہیں بلکہ بکوٹ پولیس کی Look busy, do nothing پالیسیاں گزشتہ روز کہو شرقی کی ایک ماں کو بچی سمیت نیو کوہالہ پل سے دریا میں کودنے سے بھی نہ روک سکی ۔۔۔۔۔ اندھیر نگری چوپٹ راج نے کل ہفتہ کے روز یو سی بیروٹ کی دو جانیں لے لیں ۔۔۔۔۔ ذمہ دار کون ۔۔۔۔؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے، مصلحت پسند جرگے یا ہم سب بے صبرے اور بھاینک نتائج سے نا شناسا لوگ ۔۔۔۔۔؟
  ۔۔۔۔ 21 جنوری، ہفتہ کے روز ۔۔۔۔۔ شمالی بیروٹ کی ڈھوک لمیاں لڑاں میں طاہر سرفراز عباسی کی اہلیہ کی نماز جنازہ کی تکبیریں کہی جا رہی تھیں کہ ۔۔۔۔ گولیوں کی تڑ تڑ ہوئی اور ایک نوجوان ۔۔۔۔ یاسر اورنگزیب عباسی ۔۔۔۔۔ کے بدن سے تین گولیاں آر پار ہوگئیں، وہ گرا، آخری ہچکی لی اور ۔۔۔۔ نماز جنازہ میں شامل نمازیوں کے سامنے اس نے با وضو حالت میں خلد بریں کی جانب پرواز کر لی، دو اور گولیاں بھی چلیں اور وہ کبیر عباسی اور حاجی افراز عباسی کو لہو لہان کرتے ہوئے گزریں، وہ دونوں زخمی تو ہوئے مگر رب تعالیٰ نے انہیں اس جہان فانی میں ابھی رہنے کا ایک اور موقع فراہم کر دیا ۔۔۔۔۔ عین اسی وقت ۔۔۔۔۔ نیو کوہالہ برج پر سے کہو شرقی میں واقع لوٹ مار کرنے والی نصب لفٹ کے قریب رہائشی وی سی کہو شرقی کے خطیب عباسی کی اہلیہ بھی اپنی ایک کمسن بچی کو سینے سے لگائے ۔۔۔۔ منگلا کی جانب بے پروا ٹھنڈی ٹھار موجوں کے ساتھ رواں دواں دریائے جہلم میں کود گئی، کنیر پل پر تو شور مچ گیا، تا ہم خاتون کی بانہوں سے بچی چھوٹتے ہی کنارے سے آ لگی جسے بچا لیا گیا ہے مگر ۔۔۔۔ گھریلو حالات سے دلبرداشتہ خاتون کے جسد خاکی کا 24 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی سراغ نہیں مل سکا ہے ۔۔۔۔ اس کے چھوٹے اور کمسن بچے اپنے گھر میں اپنی ۔۔۔۔ ددے ۔۔۔۔ کی نا معلوم منزل سے آمد کے منتظر ہیں اور ہر آہٹ پر ڈوغے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک دوڑتے چلے جاتے ہیں ۔۔۔ مگر اب تو وہ وہاں پہنچ چکی ہے جہاں سے وہ کبھی نہیں آئے گی ۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کی چھ یونین کونسلوں میں ۔۔۔۔۔ سال رواں میں کسی خاتون کا دریائے جہلم میں کود کر خود کشی کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
بیروٹ میں گزشتہ تین سالوں کے دوران ۔۔۔۔ صرف 20 روپے کے جھگڑے نے تین افراد کی جانیں لے لی ہیں ۔۔۔۔۔ پہلے نوید عباسی کو دن دیہاڑے اگلے جہان بھیجا گیا ۔۔۔۔ اس کے ری ایکشن میں دوسرا نوجوان ۔۔۔۔ یاسر اورنگزیب عباسی بھی خلد بریں پہنچ گیا ہے ۔۔۔۔ بات پھر وہاں ہی آ کر رکتی ہے کہ ۔۔۔۔۔ جس نے قصور کی ابتدا کی ۔۔۔۔۔ جس نے ایک انسان کی شکل میں پوری انسانیت کو قتل کیا ۔۔۔۔۔ اس کو سزا سے کیوں بچایا گیا ۔۔۔۔؟ کیا جرگوں کا کام صرف یہی رہ گیا ہے ۔۔۔۔۔؟ گلیات میں دو لڑکیوں کے قتل کے بعد بھی ان جرگوں کے کردار پر سوالات اٹھے، اب سرکل بکوٹ کی چھ یونین کونسلوں میں 35 پی ایچ ڈیز کی حامل سب سے زیادہ پڑھی لکھی یونین کونسل بیروٹ کے ان مصلحت پسند اور مجرموں کو نئی زندگی دینے والے ۔۔۔۔ ان جرگوں کے ۔۔۔۔ کردار پر بھی انگلیاں اور سوالات اٹھ رہے ہیں ۔۔۔۔ دو متحارب گروپوں اور مسلمانوں کے دو گروہوں میں مصالحت کروانا نہایت مستحسن اقدام ہے ۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔ عدالتی سزا سنائے جانے کے بعد ۔۔۔۔ تا کہ مقتول پارٹی بلا جبر و اکراہ دریا دلی سے قاتل کو زندگی کی بھیک دے ۔۔۔۔۔؟

یو سی بیروٹ میں آخری پھانسی 1988 میں ہوئی تھی ۔۔۔۔ اس کے بعد سے اب تک ۔۔۔۔۔ صوبائی سٹیٹسٹکس ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق یو سی بیروٹ میں کم و بیش گزشتہ 28 برسوں میں 23 سے زائد افراد قاتلوں کے ہاتھوں اوپر پہنچ چکے ہیں ۔۔۔۔ ان میں سے ایک کا قاتل بھی لٹکایا نہیں گیا ۔۔۔۔ جرگوں نے واقعی مارے جانیوالے کے ساتھ مارنے والے کو زندگی کی خیرات ضرور دی، کچھ مقتولین کے ورثا کو قاتل پارٹی سے ریلیف بھی دلوایا گیا مگر بیروٹ میں ایک ہی معاملے پر دوسالوں میں تین افراد کا قتل، مسجد میں بیٹھ کر کئے جانے والے حلف، معاہدے اور پھر ان سے انحراف ۔۔۔۔ اور جرگوں کی مصلحت پسندی نے ۔۔۔۔۔ جرگوئیوں کے قول و قرار کو مشکوک بنا دیا ہے ۔۔۔۔ کیا اب بھی اس مصلحت پسندی سے تین قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد نجات نہیں ملے گی ۔۔۔۔؟ کیا فرماتے ہیں ممبران تحصیل و ضلع کونسل ۔۔۔۔ دینی و سیاسی جماعتیں، گروپس و ان کے ورکر کے علاوہ جرگے اور برادریاں ۔۔۔۔ بیچ اس مسئلے کے ۔۔۔۔؟
پولیس کی مجرموں کو گرفتاری سے ڈھیل، پولیس کو ہی مقتدر لوگوں کی طرف سے ہتھکڑیاں پہنا کر بے بس کر دینے سے بھی ۔۔۔۔ جرم ۔۔۔۔ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ اور پھر اس کی آگ خود جرگے اور دیگر مقتدر لوگوں کے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔۔۔۔ اللہ تبارک و تعالی سورۃ البقرۃ کی آیت کریمہ 179 میں فرماتا ہے کہ ۔۔۔۔۔ 

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ۔۔۔۔ ترجمہ ۔۔۔۔۔ اور اے عقل والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، امید ہے تم بچتے رہو گے۔

روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد ۔۔۔۔۔۔ 30 جنوری 2017

***************************

ماریہ صداقت ۔۔۔۔۔ جس کی بیگناہی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنی رپورٹ میں دیدی ہے۔

******************************

تحقیق و تحریر

محمد عبیداللہ علوی

صحافی، مورخ، بلاگر  

*******************************

ماریہ قتل کیس

******************************** 

کہیں بھی یہ کوئی انہونی بات نہیں ہوتی کہ وہاں جرم نے کیوں جنم لیا، معاشرہ کوئی بھی ہو وہاں اچھے اور برے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔

******************************** 

روزنامہ جنگ راولپنڈی ۔۔۔۔۔ 30جون،2016

روزنامہ جنگ راولپنڈی ۔۔۔۔۔ یکم جولائی، 2016

یہ یکم جون کی ایک دوپہر تھی، جواں سالہ ماریہ صداقت اپنی چھوٹی معذور بہنکے ساتھ گھر میں موجود تھی، کسی نے گھر کا دروازہ کھٹکٹایا، اس نے اندر سے ہی پوچھا کون ۔۔۔۔۔ ایک شناسا آواز آئی ۔۔۔۔۔ ہم ہیں دروازہ کھولو ۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔۔ آن واحد میں دروازہ کھل گیا ۔۔۔۔  یہ دیکھنے کیلئے سر باہر نکالا تو ایک ہاتھ نے اسے باہر گھسیٹا ۔۔۔۔۔ دوسرے نے مٹی کے تیل کی بوتل اس پر انڈیلی اور اسے آتشیں شعلوں کے حوالے کر دیا گیا، اسے چیختا دیکھ کر انسانی بھیڑئیے ہنستے رہے ۔۔۔۔۔ جب انہیں یقین ہو گیا کہ ماریہ صداقت مر چکی ہے تو اسے گھسیٹ کر ایک کھائی میں گرا دیا، ماریہ صداقت پچاسی فیصد جھلس چکی تھی، ملک کے سب سے بڑے ہسپتال پمز اسلام آباد کے برن یونٹ میں اسے لایا گیا، اس وقت اس کے لواحقین کو بتا دیا گیا کہ وہ بس چند گھنٹوں کی مہمان ہے، اسے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ یہاں ملکی اور غیر ملکی میڈیا بھی آ گیا، پولیس بھی اس کی زندگی کا پہلا اور آخری بیان لینے لگی، ماریہ نے بتایا

ماریہ کا والد صداقت عباسی

 اس صفہ اکیڈمی دیول کے پرنسپل ماسٹر شوکت عباسی اور ایک سابق کونسلر میاں ارشد نے آگ لگائی ہے۔

صحافیوں اور پولیس تفتیشی افسر نے پوچھا کہ ۔۔۔۔۔ کیوں

تو ماریہ کے والد نے جواب دیا کہ ۔۔۔۔۔ ماسٹر شوکت اپنے بیٹے ہارون کیلئے میرا رشتہ مانگ رہا تھا جو میرے والد نے نہیں دیا تھا۔

ہارون الرشید ۔۔۔۔۔ جس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود ماریہ کو لارے لپے لگائے اور اس کی موت کا سبب بن گیا

ہارون کی اہلیہ شمائلہ

 ماریہ نے ہسپتال میں ہی دم توڑ دیا، والدین نے برن یونٹ کے انچارج ڈاکٹر حاشر پر الزام لگا کہ اس نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا اور ان کی جان سے عزیز بیٹی چل بسی ۔۔۔۔۔ ماریہ کا جسد خاکی دیول پہنچ گیا اور رات دس بجے اسے سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس افسوس ناک واقعہ کہ بی بی سی، سی این این سمیت ہر ذریعہ ابلاغ نے کوریج کی، وزیر اعلی شہباز شریف لندن میں تھے، انہوں نے فوراً ملزموں کی گرفتاری اور چوبیس گھنٹوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا، ملزم مفرور تھے، واقعہ کے تیسرے دن مرکزی ملزم ماسٹر شوکت نے گرفتاری دیدی ۔۔۔۔ ساتھ ہی ایک ویڈیو پیغام بھی دیدیا ۔۔۔۔۔ جس میں ماسٹر شوکت نے قرآن ہاتھ میں لیکر کہا کہ ۔۔۔۔۔۔ وہ اس واقعے میں ملوث نہیں اور وہ رضا کارانہ گرفتاری دے رہا ہے۔

واقعہ کا مرکزی ملزم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماسٹر شوکت، جسے پولیس تحقیقات کے بعد بے گناہ قرار دے دیا گیا

  *********************

اب جبکہ ملزمان ملزم پکڑے جا چکے ہیں، اور ان سے پوچھ گچھ بھی کی جا رہی ہے، بیک ڈور چینل سے ملزموں کے جرگے مقتولہ ماریہ کے والدین پر دبائو بھی ڈال رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر وہ صلح پر راضی ہوتے ہیں تو کیا مقتولہ ماریہ کی دیت ادا کی جائیگی، دکھی والدین فی سبیل اللہ ملزموں کو زندگی کی بھیک دیں گے ۔۔۔۔ یا اس کی نوعیت مختلف ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔؟

 عہد قدیم سے کسی بھی معاشرے کے قاتلوں کیلئے مختلف قسم اور نوعیت کی سزائیں ہوا کرتی تھی تھیں، قدیم یورپ میں تو بڑے دردناک طریقے سے آلات کے ذریعے قاتل کو ہلاک کیا جاتا تھا (اس کیلئے دیکھئے یہ لنک) قدیم ہندوستان میں تو یہ سزائیں اور بھیانک تھیں، گنہگار کو جلتے کوئلوں پر اور نوکیلی میخوں پر چلنا پڑتا تھا، دیکھئی یہ لنک) اسی تناظر میں اگر کوئی کوہ مری یا سرکل بکوٹ میں قتل جیسا جرم کر بیٹھتا تو اس کے لئے تین آپشن تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟

اول ۔۔۔۔۔۔۔ قاتل کو مقتول پارٹی کے حوالے کر دیا جائے ۔۔۔۔۔ اس کا جرگہ اس کی تقدیر کا فیصلہ  کرتا ۔۔۔۔۔۔ یہاں بھی دو صورتیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔؟

الف ۔۔۔۔۔۔ فیصلہ کے بعد اس کے دونوں ہاتھ پائوں توڑ کر اور اس کے ساتھ اس کا ہم وزن پتھر باندھ کر اونچی جگہ سے نیچے پھینکا جاتا یا اسے دریا میں غرق کردیا جاتا یا آگ میں زندہ جلا دیا جاتا اور مرنے کے بعد بے گور و کفن ۔۔۔۔۔ ٹوئے ۔۔۔۔۔ میں دبا دیا جاتا۔

ب ۔۔۔۔۔۔ اگر اسے مفید کاموں کے سلسلے میں زندہ رکھنا ہے تو اس کے گلے میں ایک زرد گلو بند باندھ دیا جاتا ۔۔۔۔۔۔ اس گلو بند کو ۔۔۔۔۔ گلانوی ۔۔۔۔۔۔ کہتے تھے جو غلامی کا ہی ایک روپ تھا، اسے محلہ کے اعتبار سے ۔۔۔۔ پانڈی ۔۔۔۔۔۔ بھی کہتے تھے، اس کو حق زندگی دے کر باقی حقوق ضبط کر لئے جاتے تھے ، جیسے اسے خصی کر دیا جاتا تھا، اس کے فرائض یہ تھے کہ وہ ۔۔۔۔۔ پانڈی کی حیثیت سے اس محلہ یا گائوں کے کسی شخص کے سامنے کسی وقت بھی کوئی کام کرنے سے انکار نہیں کر سکتا  تھا، وہ اہل گائوں کا جنم جنم کا غلام بن جاتا تھا اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک یہ یہ ڈیوٹی نبھانا پڑتی تھی، اس کی سماجی حیثیت ۔۔۔۔۔ ہندو مت کے اچھوت ۔۔۔۔۔ شودر سے بھی بد تر تھی، اور اس کیلئے لفظ ۔۔۔۔۔ چنڈال ۔۔۔۔۔۔ بولا جاتا تھا، اسے اور کتے کو ایک ہی برتن ۔۔۔۔۔ جسے ٹٹھ ۔۔۔۔۔۔ کہا جاتا تھا روٹی ڈالی جاتی تھی، اسے اجازت تھی کہ جہاں چاہے سو جائے مگر اسے مویشیوں کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ کوہال میں سونا پڑتا رھا، اسے کسی عید یا کسی کلچرل فیسٹیول میں شرکت کی اجازت نہ تھی اور اگر اس کی خلاف ورزی کرتا تو ۔۔۔۔۔۔ گائوں کی نمایاں جگہ پر اس کی دھنائی کی جاتی ۔۔۔۔۔ مرنے کی صورت میں اسے کسی بھی کھیت کی ۔۔۔۔۔ کلیہا میں بے گور و کفن دبا دیا جاتا تھا۔

دیت کی صورتیں بھی دو طرح کی تھیں

 اسے ۔۔۔۔۔ اوڑہ ۔۔۔۔۔۔ کہتے تھے، پہلی صورت میں اسے مقتول پارٹی کے حق میں اپنے حق جائیداد سے دستبردار ہونا پڑتا تھا ۔۔۔ اس کی ماضی میں مختلف صورتیں رہی ہیں، موہڑہ شریف کے پاس ایک ڈھوک ۔۔۔۔۔ اوڑہ کہلاتی ہے، یہ بھی قتل کی وجہ سے ایک خاندان سے دوسرے خاندان کی ملکیت بنا تھا، اٹھارویں صدی میں یونین کونسل بیروٹ کی ویلیج کونسل باسیاں میں بھی ایک قتل کے سلسلے میں اوڑہ ۔۔۔۔۔ کی صورت میں لیکر موجوالوں کو بکوٹ بے دخل کر دیا گیا تھا ۔۔۔۔۔

دیت کی دوسری صورت ۔۔۔۔۔

 پوہچھن ۔۔۔۔۔ ہوا کرتی تھی، اس میں مقتول پارٹی قاتل پارٹی سے ۔۔۔۔۔ بلا جبرو اکراہ ۔۔۔۔۔ ایک یا ایک سے زیادہ رشتے لیتی تھی خواہ یہ ایک درجن ہی کیوں نہ ہوں ۔۔۔۔۔ مگر رشتہ لے کر لی جانیوالی لڑکی کو وہ تمام حقوق حاصل ہوتے تھے جو ۔۔۔۔۔ آج کی دلہن کو حاصل ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس رشتہ دقاری کا سب سے پسندیدہ پہلو یہ تھا کہ دونوں پارٹیاں دل سے ایک دوسرے کو معاف کر دیتی تھیں اور دونوں خاندان ۔۔۔۔۔ الفت کے ایک رشتہ میں منسلک ہو جاتے تھے،  مگر اس میں قاتل پارٹی کو ٹمن ۔۔۔۔۔ کی رسم میں بڑی آزمائش سے گزرنا پڑتا تھا، انہیں فی آدمی ایک بکرہ کھانا پڑتا تھا، انہیں خالی پیٹ اندھیری راتوں کو کانٹوں سے بھرے ننگے پائوں ہوتر تروپی (ہوتر میں دھان کی کاشت) کرنا پڑتی تھی۔۔۔۔ وغیرہ، اس پوہچھن کی رسم کی صورت میں ۔۔۔۔۔ قاتل پارٹی کو اپنی بیٹی کو جائیداد، مقتول پارٹی کی طرف سے طلب کردہ جہیز اور دیگر گھریلو سامان بھی دینا پڑتا تھا، اور اس میں انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔۔۔۔۔ 

آج بھی ہزارہ اور کشمیرکے بعض مقامات پر ایسی صورتیں نظر آتی ہیں مگر ۔۔۔۔ گلانوی ۔۔۔۔۔ کی رسم ختم ہو چکی ہے، اس عہد جاہلیت میں ایک اور رسم بھی جاری تھی کہ جس لڑکی پر ذرا سا بھی شبہ ہو جاتا تو ۔۔۔۔۔ اسے دہکتے کوئلوں پر چل کر اپنی بے گناہی ثابت کرنا پڑتی تھی یا اس کی ناک کاٹ اور سر مونڈھ کر عبرت کا نشانہ بنایا جاتا تھا مگر ۔۔۔۔۔ اس دور کے جرگے اصل مرد گنہگار کو بخش دیتے تھے ۔۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔۔ اس بارے میں تاریخ کوہسار خاموش ہے۔

واقعات کا پس منظر

کچھ عرصہ قبل ہم سنا کرتے تھے کہ سٹوپ پھٹ گیا ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ نوبیاہتا دلہن جل کر مر گئی، حالانکہ اسی جگہ اس دلہن کا خدائے مجاز اور اس کی ساس بھی موجود تھی مگر انہیں کچھ نہیں ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اہل خانہ اپنی بہو کو خود قتل کر کے بے زبان سٹوپ کے متھے مار دیتے تھے حالانکہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے سٹوپ اہلیان کوہسار کو اس لئے مفت دئے رتھے کہ درختوں اور جنگلات کی کٹائی نہ کریں مگر ذہین لوگوں نے اپنی ناپسندیدہ بہو سے جان چھڑانے کیلئے سٹوپ کا ایک یہ استعمال بھی نکال لیا تھا، کوہسار کی خواتین بڑی با ہمت اور روشن خیال ہیں، تعلیم نے ان میں بردباری اور نئے زمانے کے نئے تقاضوں کو سمجھنے کا سلیقہ بھی عطا کیا ہے پھر بھی ان خواتین اور بچیوں میں خود کشی پر اگر کوئی زور دیتا ہے تو ۔۔۔۔۔۔ سٹوپ ہی پھٹ کر یا اپنے آپ کو آگ لگا کر ہی خود کشی کیوں ۔۔۔۔۔۔۔؟ گہرائی سے سمجھنے والی بات ہے کہ وہ آگ کو گلے لگا کر موت کو کیوں دعوت دے گی جبکہ عہد قدیم سے آج تک کوہسار کی خواتین یا جذباتی بچیوں میں خود کشی کی جتنی وارداتیں ہوئی ہیں اس کا ذمہ دار اسٹوپ کی طرح نشیب میں بہنے والا ظالم دریائے جہلم بھی ہے ۔۔۔۔۔ سال رواں کے  مئی کے پہلے ہفتے میں اپنے ظالم سسر کے ہاتھوں ستائی ہوئی بیروٹ کے مفتی عتیق عباسی کی ہمشیرہ اور ایک بیٹی سمیت تین بچوں کی ماں نے خود کو نیو کوہالہ پل سے اسی دریائے جہلم کے سپرد کیا اور خود غم دوراں سے نجات پا گئی، اسی طرح ایک اندازے کے مطابق یہ دریائے جہلم کم و بیش کوہسار کی پچاس سے زیادہ زندگی سے تنگ خواتین کو ہر سال نگل رہا ہے ۔۔۔۔۔ ایسے میں بیروٹ خورد کی سمیعہ اور دیول کی ماریہ کے سامنے خود سوزی کی دردناک موت کے بجائے دریائے جہلم کے ٹھنڈے ٹھار لہراتے پانیوں میں کودنا زیادہ آسان تھا ۔۔۔۔۔ اس لئے جو لوگ سمیعہ اور ماریہ کی موت کو خود کشی قرار دیتے ہیں پہلے وہ یہ زمینی حقائق بھی پیش نظر رکھیں کہ ۔۔۔۔۔ خود کشی کیلئے کوہسار کی خواتین کا سب سے آسان راستہ دریائے جہلم ہے نہ کہ ۔۔۔۔۔۔ خود سوزی۔
مئی سے تواتر کے ساتھ کوہسار اور گلیات میں لڑکیوں کو جلانے اور بلندی سے گرا کر ہلاک کئے جانے کے جو واقعات سامنے آئے ہیں اس سے ہر با ضمیر شخص ہل کر رہ گیا ہے، گلیات کی وی سی مکول میں نویں جماعت کی طالبہ عمبرین کو مقامی ظالم اور وحشی جرگہ کے جانور نما جرگوئیوں کے حکم پر جس بہیمانہ طریقے سے تشدد کے بعد ایک گاڑی میں باند  کر آتشیں شعلوں کے سپرد کیا گیا ۔۔۔۔۔۔ کہ آسمان کا کلیجہ بھی بنت حوا کی اس بے بس موت پر پھٹ گیا، اس کی دلدوز چیخیں بھی ظالموں کا کچھ نہ بگاڑ سکیں اور اس نے آگ میں تڑپ تڑپ کر موت کو گلے لگایا، آخر کار یہ خبر میڈیا کے پاس پہنچی اور قانون حرکت میں آیا اور ملزمان کا کیس اب انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ہے، اس سانحہ میں سب سے دل ہلانے والا واقعہ یہ ہے کہ عنبرین کی ماں نے سپنی بن کر اپنی کھوکھ سے جنم لینے والی اس بچی کو درندوں کے حوالے کیا۔

مقتولہ عنبرین کا گاڑی سمیت جلا ہوا جسد خاکی

مئی کے آخری ہفتے میں بیروٹ خورد کی ایک غریب خاندان کی کوزہ گلی گلیات میں شادی شدہ لڑکی سمیعہ کو اس کی ساس نے رات کی تاریکی میں پھانسی دیدی اور یہ بات مشہور کر دی کہ سمیعہ ٹی بی کی مریضہ تھی اور اس نے بیماری سے تنگ آ کر مکان سے گر کر خود کشی کر لی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سمیعہ کی ساس کا ایک بھائی ممبر ضلع کونسل ایبٹ آباد ہے اور وہ سمیعہ کی موت کو خود کشی کا رنگ دینے میں پیش پیش ہے اور اس نے متوفیہ سمیعہ کے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی رد و بدل کرایا ہے جبکہ متوفیہ کی والدہ اور دیگر رشتہ دار اس کی از سر نو قبر کشائی کے بعد اس کے پوسٹ مارٹم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بیروٹ خورد کی کوزہ گلی میں بیاہی ہوئی سمیعہ، جسے اس کی ساس نے پھانسی دیدی اور بعد میں اس کی خود کشی کا ڈھونگ رچایا

******************************

 حوالہ جات

منو سمرتی ۔۔۔۔۔ ہندوستانی نظام عدل کا اہم حوالہ

ذات پات کی کہانی اور منو سمرتی کی زبانی

ذات پات کا بانی، منو سمرتی

قدیم ہند میں نظام عدل

ہندوستان کا قانونی نظام، ایک تعارف

قدیم ہند میں عدالتی نظام

دنیا میں قانون کا ارتقا ۔۔۔۔۔۔ تاریخ کے آئینے میں 

قدیم ہند کا سماجی انصاف

آریائی معاشرے کا سماجی نظام 

تاریخ قدیم ہند ۔۔۔۔۔۔ انصاف کے حوالے سے

ہندو مت میں عورت کا مقام 

ہندو مت میں ضابطہ تعزیرات

ماریہ قتل کیس ۔۔۔۔۔۔ فراہمی انصاف میں تاخیر کیوں؟ 

پاکستان میں لڑکیوں کا قتل کیوں؟

مری کے مسلمانوں میں رشتہ داری

  

 

 

<Next> 

 


  

3 comments:

  1. It’s remarkable to visit this web site and reading the views of all mates concerning this paragraph i much like this
    KumKum TV

    ReplyDelete
  2. It’s very informative to visit this web site to keep myself and my fellows up to date about future best careers. However, you can also visit this link for same more useful data.
    Latest jobs

    ReplyDelete
  3. watch Pakistani News live online
    https://www.darsaal.com/tv/pakistan-news-tv-channels.html

    ReplyDelete